Spellings

English to Urdu Translation class 9th

English to Urdu Translation class 9th,english to urdu,urdu translation 9th,9th class english to urdu translation,اردو ترجمہ,

English to Urdu Translation class 9th
Lesson # 1 
اُردو ترجمہ
 1۔       دھکتے سورج کی چمکدار شعاعوں میں ،ریت کے ٹیلوں والے گمنام صحراؤں کےساتھ !عرب کی سر زمین  بے مثال دلکشی اورخوبصورتی کی حامل ہے۔اس کا ستاروں بھرا آسمان شاعروں اور سیاحوں کے تخیل کو خوش کر چکاہے۔یہ وہی سرزمین ہے جس کے شہر مکہ میں نبی پاک ﷺپیدا  ہوے تھے۔جو کہ بحیرہ احمر سے تقریباً پچاس میل کے فاصلہ پرواقع ہے۔

 2۔    عرب کے لوگ بڑی شاندار یاداشت کے مالک تھے اور وہ بڑے خوش گفتار لوگ تھے۔ اُن کی خوش گفتاری اور یاداشت کاتاثر اُن کی شاعری سے ملتا ہے۔ہر سال "عکاظ" کے مقام پر شاعری کے مقابلوں کے لیے ایک میلہ منعقدہوتا تھا۔ایک روایت کے مطابق حماد نے خلیفہ ولید بن یزید سے کہا کہ"میں آپ کو حروف تہجی کے ہر حرف کے لیے بغیر چھوٹےٹکڑوں کے ایک سو طویل نظمیں سنا سکتا ہوں،جو اشاعت اسلام سے پہلے مخصوص شاعروں نے لکھی ہیں"۔ یہ کوئی معمولی معجزہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حتمی پیغام کوپھیلانے اور اپنے کلام(قرآن ِ پاک) کو محفوظ کرنے کے لیے عربی زبان کاانتخاب کیا۔ 

3۔    پانچویں اور چھٹی صدی میں انسانیت تباہی کے دھا نے پر کھڑی تھی۔ایسا لگتا تھا کہ جس تہذیب کو پروان چڑھنےمیں چار ہزارسال لگے تھے، اب وہ   بکھرنا شروع ہو چکی تھی۔ اس نازک وقت پر انسانیت کو جہالت سے نکال کر ایمان کی روشنی میں لانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اُنہی (لوگوں) میں سے ایک رسول  پیدا کیا۔

4۔    جب حضرت محمد ﷺ کی عمر اڑتیس برس تھی تو آپ ﷺ اپنا زیادہ تر وقت تنہائی اور توجہ( غوروفکر) میں گزاراکرتے تھے۔غار حِرا میں آپ ﷺ کھانے پینے کے ساتھ  (دنیا سے) کنارہ کش ہو کر  کئی دن اور ہفتے اللہ تعالیٰ کی یاد میں  گزارا کرتے تھے۔
  
5۔    انتظار کا وقت قریب آ چکا تھا۔ آپ ﷺ کا دل انسانیت کی گہری ہمدردی سے لبریز تھا۔آپ ﷺ کی شدید خواہش تھی کہ بد اعتقادی،معاشرتی  برائیوں ،ظلم اور نا انصافی کو جڑھ سے اُکھاڑ پھینکیں۔ وہ لمحہ آ پہنچا جب آپ ﷺ کو نبوت عطا ہونا تھی۔ایک دن جب آپ غارِ حِرا میں تھے،حضرت   جبرائیل ؑ آئے اور آپﷺ کو اللہ ذوالجلال کا  مندرجہ  ذیل پیغام پہنچایا:
"پڑھ! اپنے رب(آقا) کےنام سے جس نے پیدا کیا: پیدا کیا انسان کو خون کے لوتھڑے سے(جما ہوا خون) :پڑھ   کہ تیرا رب بڑا ہی کریم ہے جس نے قلم کا استعمال سکھایا اور انسان کو وہ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا"۔

6۔    پیغام الٰہی کا وہ سلسلہ الہام  جو اگلے تئیس برس تک جاری رہا، شروع ہو چکا تھا اور رسول  ﷺ اللہ کی واحدانیت(توحید)اورانسانی وحدت کا اعلان کرنے کے لیے کھڑے ہو چکے تھے۔ان  کامشن توہم پرستی ، جہالت اور کفر کےسلسلے کوختم کرکےزندگی کا ایک عمدہ تصور مرتب کرنے کے ساتھ ساتھ  انسانیت کو ایمان کی روشنی اور نعمت الٰہی کی طرف  راغب کرنا تھا۔

7۔    چونکہ معاشرے میں  اس عقیدے سے اُن(کفار) کے تسلط کو خطرہ تھا, تو عرب کے کفار نے رسول ﷺ اور آپ کے پیروکاروں پر دباؤ  بڑھانا شروع کر دیا۔ وہ  چاہتے تھے کہ (مسلمان) اپنا مقصد ترک کردیں  اور بت پرستی کو اپنا لیں۔ ایک موقع پر اُنہوں نے نبی پاک ﷺ کے مہربان اور  شفیق چچا  حضرت ابو طالب کے پاس ایک وفدبھیجا۔ اُنہوں نے آپ ﷺ کے چچا کو کہا کہ وہ اپنے بھتیجے  کو اللہ تعالیٰ کا پیغام  پھیلانے سے روکیں ورنہ اُن (کفار) کی دشمنی کا سامنا کریں۔ اپنے آپ کو دو طرفہ مصیبت میں پا کر اُنہوں نے اپنے بھتیجے کو بلایا اور تمام حالات سے آگا ہ کیا۔  رسول ﷺ نے ان یادگار الفاظ میں جواب دیا:
 "میرے پیارے چچا جان ! اگر وہ لوگ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند رکھ دیں تو میں پھر بھی اللہ  تعالیٰ کی توحید کااعلان کرنے  سے باز نہیں آ ؤں گا۔میں زمین پر ایک سچا مذہب قائم کروں گا یا پھر اسی کوشش میں ختم ہو جاؤں گا"

8۔    نبی پاک ﷺ کے چچا اپنے بھتیجے کے اس پختہ عزم سے اس قدر متاثر ہوئے کہ اُنہوں نے جواب دیا:
"میرے بھائی کے بیٹے اپنے راستے پر چلتے رہو، کسی کی جرت نہیں کہ وہ تمہیں چھوئے۔ میں تمھارا ساتھ کبھی نہیں چھوڑوں گا"۔

Lesson # 2 Patriotism
اُردو ترجمہ
1۔    حُب الوطنی کا مطلب اپنےآبائی وطن سے پیار یا اپنے ملک سے عقیدت ہے۔ ایک محب ِوطن اپنے ملک سے پیار کرتا ہےاور ضرورت پڑنے پر قربانی دینے کے لیے تیار رہتا ہے۔ لفظ "Patriota"لاطینی لفظ"Patriot" سے نکلا ہے جس کامطلب "ہم وطن" ہے۔ یہ ایک قابل تحسین خوبی سمجھی جاتی ہے۔

2۔حب الوطنی لوگوں کو ملک اور قوم کے مفاد کی حفاظت کرنے کی طاقت اور حوصلہ دیتی ہے۔ایک محب وطن کے لیےملک کی خود مختاری، سالمیت اور عزت وہ اعلیٰ اقدار ہیں جن پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔ محب وطن ان اقدار کے تحفظ اور حفاظت کے لیے قربانی دیتے ہیں۔

3۔    قائد اعظم محمد علی جناح ایک عظیم معمارقوم اور محب وطن تھے۔ وہ بر صغیر کے مسلمانوں کی اقدار ، ثقافت اور روایات کی حفاظت کرنا چاہتے تھے۔ اُنہوں نے ایک علیحدہ وطن حاصل کر کے مسلمانوں کو اپنی شناخت کا احساس دیا, اُنہوں  نے فرمایا
"ہمیں حب الوطنی کے جذبے کو ضرور اُبھارنا ہےجو  ہم سب کو ایک متحد اور مظبوط قوم میں ڈھال دے"

4۔   حُب الوطنی کا جذبہ ہمیں غیر ملکی حملے کی صورت میں چوکنا رکھتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں ہمیں بہت سی ایسی مثالیں ملتی ہیں جب لوگوں نے ملکی دفاع کے لیے اپنی جانیں قربان کیں۔ 1971,1965اور کارگل کی جنگوں میں  کئی بہادرسپاہیوں نے اپنےوطن کی حفاظت کی کوشش میں اپنی جانیں دیں۔ کیپٹن محمد سرور، میجر محمد طفیل،میجر عزیز بھٹی ، پائلٹ افسر راشد منہاس، میجرمحمد اکرم، میجر شبیر شہید،کیپٹن کرنل شیر خاں اور حوالدار لالک جان نے آبائی سرزمین کے لیےبہادری سے لڑتے ہوئےشہادت پائی۔ ان سب کو نشانِ حیدر سے نوازا گیا، یہ سب سے بٹا فوجی اعزاز ہے جو اُن عظیم محب وطنوں کو دیا جاتا ہے جو وطن کی خاطر اپنی جانوں کو قربان کرتے ہیں۔

5۔تاہم حب الوطنی ایک احسان ہی نہیں بلکہ یہ ایک زندہ جذبہ ہے جو کسی قوم کو مسلسل متحرک رکھتا ہے اور اس کی راہنمائی کرتاہے۔ ایس۔ڈبلیو سکاٹ کے الفاظ میں حب الوطنی کے جذبے سے عاری شخص ایسا ہوتا ہے کہ
"جس نے کبھی خود سے نہ کہا ہو، یہ میری اپنی،اپنی سرزمین ہے۔آدمی سانس لیتا ہے ایک مردہ روح کے ساتھ،"
 Lesson # 3 Media and its Impact
   سبق نمبر 3 (میڈیا اور اس کا اثر)
مس عائشہ جماعت نہم کی پسندیدہ اُستانی ہے۔ طلباء بڑے شوق سے اُس کی جماعت میں حاضر ہوتے ہیں۔
مس عائشہ اپنی حسب ِ معمول مسکراہٹ کے ساتھ کمرہ جماعت میں داخل ہوتی ہیں، طلباء کو سلام کرتی ہیں،اور حاضری لگاتی 
ہیں۔یہ اُن کا بزم ِادب کا دن ہے۔طلباء مکمل طور پر تیار ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ کیا ہونے والا ہے اور وہ اس کے لیے تیارہیں۔              
وہ نرمی  سے پوچھتی ہیں: کیا ہم شروع کریں۔
طلباء سر ہلا کر اشارہ کرتے ہیں"ہاں"

اُستانی:   اچھا ، جیسا کہ ہم پہلے ہی آج کی بات چیت  کے موضوع  کا انتخاب کر چکے ہیں، وہ ہے"میڈیا کا کردار اور اس کا اثر"
                    شروع کرتے ہوئے میں واضح طور پر بتانا چاہوں گی کہ میڈیا ابلاغ کا سب سے طاقتور ذریعہ ہے۔  یہ لوگوں  کو                       خبریں اور معلومات دیتا ہے۔بعض اوقات میڈیا جھوٹی خبریں پھیلاتا ہے لیکن عام طور پر یہ ہمیں ہمارے گرد و                        نواع کی حقیقتوں سے آگاہ کرتا ہے۔ کیا آپ متفق ہیں؟
طلباء:            ہاں ہم ہیں۔

طالب علم 1:میں اس بات میں مزید کچھ اضافہ کرنا چاہوں گا۔
اُستانی:            ہاں بے شک۔

طالب علم 1:  میڈیا دنیا کے علم کو بانٹنے میں لوگوں کی مدد کرتا ہے۔ اس کے ذریعے اُن کے احساسات اور آراء کا اظہار ہوتا                      ہے۔ میڈیا سامعین کی بڑی تعداد کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ گھر میں                             داخل ہونے کے بعد  ہم سب کا پہلا کام ٹیلی وژن لگانے کا کرتے ہیں؟
استانی:            اس کے متعلق تو کوئی شک نہیں۔

طالب علم 2:    میں کہنا چاہتا ہوں گا کہ میڈیا ہماری زندگیوں کا حصہ بن چکا ہے۔ یہ نا صرف ہمیں آگاہ کرتا ہے بلکہ ہمیں                        تفریح بھی دیتا ہے۔
اُستانی:            بالکل ٹھیک۔ اچھا تو کیا آپ مواصلات کے دو برے ذرائع سے متعلق جانتے ہیں؟

طالب علم 3: مواصلات کے دوبڑے ذرائع الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا ہیں۔میڈیا فلم،ریڈیو،ٹیلی وژن، انٹرنیٹ، کتابوں                        ،رسالوں اور اخبارات پر مشتمل ہے۔ یہ ہمیں معلوموت مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ تفریحی بھی دیتا ہے۔
اُستانی:          خوب! اسی میدیا کی وجہ سے آج دنیا یاک عالمگیر گاؤں بن چکی ہے۔ ٹیلی وژن پر دنیا کے تمام اہم واقعات کی                        رپورٹنگ  ہوتی ہے۔ ہم میڈیا کے ذریعے تمام قسم کی معلومات تک آسانی سے رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔

طالب علم 4: کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ دنیا صرف ایک کلک کی دوری پر ہے؟
اُستانی:            شاید، اچھا! تو کیا کوئی دوسرا طالب علم اس (موضوع) پر کچھ کہنا پسند کرے گا؟(مس عائشہ آخر میں بیٹھے                               ہوئے طالبعلم  کی طرف اشارہ کرتی ہے)

طالب علم 5:میڈم، میری رائے میں میڈیا معاشرے کے لیے بڑا تعمیری کردار ادا کرتا ہے۔ یہ بد عنوانی ، دہشتگردی،
                    نشے کی عادت اور انسانی حقوق کی پامالی جیسے کئی معاشرتی مسائل سے آگاہی بڑھاتا ہے۔
اُستانی:            ہاں تم ٹھیک کہتے ہو۔

طالب علم6: میڈیا مظلوم لوگوں کا ترجمان بھی بن چکا ہے۔
اُستانی:          ہاں، اچھی بات کہی۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ میدیا انتہائی با خبر اِدارہ ہے جو معاشرہ کے ہر طبقے پر نظر رکھتا                              ہے۔ مباحثوں ،رپورٹوں اور ٹاک شوز کے ذریعے یہ ہر کسی کو جواب دہ اور ذمہ دار بناتا ہے۔اسی لیے میڈیا                          ہماری  زندگیوں کا ایک ضروری حصہ بن گیا ہے۔ اب میں آپ میں سے کسی ایک کو دعوت دیتی ہوں  کہ وہ                          اس  گفتگو  کو سمیٹ دے۔

طالب علم 1: میں یہ کہتے ہوئے اس بات چیت کو سمیٹنا چاہوں گا کہ اگر ایمانداری سے کام ہو تا میڈیا بڑا مثبت کردار اور                         اصلاحی تاثر پیدا کر سکتا ہے۔
اُستانی:          اچھا اختتام۔ میں بہت خوش ہوں کہ آپ سب نے اس گفتگو میں حصہ لیا اور بڑے اچھے طریقے سے اپنے                            آپ  کا اظہار کیا۔          (گھنٹی بجتی ہے اور مس عائشہ جماعت کو خدا حافظ کہتے ہوئے چلی جاتی ہے)



اُردو ترجمہ                                           سبق نمبر4(حضرت اسماء)

1۔     رسول ﷺ اور اُن کے قریبی ساتھی حضرت ابوبکر  نے 622ء میں مکہ سے مدینہ ہجرت کی۔جب مختلف قبائل کے سرداروں کو رسول ﷺ اور اُن کے قریبی ساتھی   حضرت ابوبکر  کی ہجرت کا علم ہوا تو وہ بھڑک اُٹھے۔ (قبائیلی) سردار اُن کو تلاش کرنے کے لیے پہلے سے  بھی زیادہ پر عزم ہوگئے تھے۔ اُنہوں نے آپ   کی زندہ یا مردہ گرفتاری کے لیے بہت بڑے انعامات اور رقوم کی پیش کش کی۔
2۔اس سفر کی تیاری حضرت ابو بکر صدیق  کے گھر پر کی گئی۔ اس حوالے سے حضرت اسماء  نے بڑی کار آمد خدمات سر انجام دیں۔ آپ  نے اس سفر کے لیے کھانا تیار کیا۔ باندھنے کے لیے جب کوئی چیز نہ ملی تو اُنہوں نے اپنی چادر سے کھانا اُونٹ کی پشت پر باندھ دیا۔ اس خدمت کے لیے آپ کو رسول ﷺ کی طرف سے "ذات النطاقین" کا خطاب ملا۔
3۔اس خطرناک سفر کے دوران رسول ﷺ کو کھانا پہنچانا ہر کسی کے لیے انتہائی مشکل تھا۔ یہ انتہائی نازک موقع تھا کہ جس میں ذرا سی غلطی سے رسول ؐ کی زندگی خطرے میں پڑ سکتی تھی۔یہ اہم کام حضرت ابوبکر  کی بیٹی حضرت اسماء  نے بڑے اچھے طریقے سے سر انجام دیا۔وہ ہر رات کھانے کی گٹھڑی لے کر اُن پتھریلے پہاڑوں کی طرف روانہ ہو جاتیں جن میں غار ثور واقع تھا۔یہ کام کرتے ہوئے ہر وقت وہ انتہائی محتاط رہتی تھیں۔ تعاقب کیے جانے کے مسلسل خوف کے ساتھ رات کو پتھریلے راستوں پر آڑھا ترچھا ہو کر چلنا اُن کے کے لیے کتنا مشکل رہا ہوگا۔
4۔ہجرت کی رات کفار کا ایک قبائیلی سردار ابوجہل غصے میں پاگل ہوکر حضرت ابوبکر صدیق  کے گھر کی طرف روانہ ہوا۔ اس نے دروازے پر اندھا دھند دستک دینا شروع کردی۔ حضرت اسماء  سے مخاطب ہوتے ہوئے اس نے مطالبہ کیا کہ" تمہارا باپ کہاں ہے"؟ آپ  نے بڑی نرمی سے جواب دیا:" مجھے کیسے پتا ہو سکتا ہے؟" ۔ اس جواب سے حضرت اسماء کی دانشمندی اور حوصلہ ظاہر ہوتا ہے۔ آپ نے کوئی وضاحت نہیں کی جس سے اُن(کفار) کو کوئی سراغ ملتا۔آپ نے سادگی سے ایک جوابی سوال کردیا ، جس سے ابوجہل بھڑک اُٹھا۔ اس نے اتنے زور سے حضرت اسماء کے چہرے پر تھپڑ لگایا کہ آپ کے کان کی بالی ٹوٹ کر گر پڑی، مگر آپ  ڈٹی رہیں اور راز کو فاش نہیں کیا۔
5۔ آپ  کے دادا حضرت ابو قحافہ اس وقت کافر تھے۔ وہ بہت بوڑے اور اندھے ہو چکے تھے۔ اُنہوں نے آپ  سے کہا " اسماء میرے خیال میں ابوبکر تمہیں اور بچوں کو خالی ہاتھ اور لاچار چھوڑ کر ساری دولت اپنے ساتھ لے گیا ہے۔ اس بات پر وہ فوراً گھر کے ایک کونے کی طرف بھاگیں۔ اُنہوں نے کچھ کنکر جمع کیے اور ان کو اسی جگہ پر رکھ دیا  جہاں آپ کا والد رقم اور جواہرات رکھ کرتا تھا۔ آپ نے ان کو ایک کپڑے کے ٹکڑے سے ڈھانپ دیا۔ "آؤ دادا جان دیکھو ، وہ یہ سب ہمارے لیے چھوڑ گئے ہیں"۔ اس نے کپڑے کو چھوا اور سوچا کہ یہ سونے اور جواہرات سے بھرا ہوا ہے۔ اس کی پریشانی ختم ہو گئی اور اس نے یہ جان کر خوشی محسوس کی کہ ابوبکر صدیق اپنی ساری دولت گھر پر چھوڑ گیا ہے۔
6۔حضرت اسماء  اسلام قبول کرنے والے لوگوں میں سے ایک تھیں۔ وہ حضرت ابوبکر صدیق کی بیٹی اور حضرت عائشہ  کی سوتیلی بہن تھیں۔وہ حضرت زبیر بن الاعوام  کی بیوی اور حضرت عبداللہ بن زبیر کی ماں تھیں۔آپ نے تقریباً سو سال کی پکی عمر میں وفات پائی۔ حجرت عبداللہ بن زبیر کہا کرتے تھے کہ اُنہوں نے آج تک اپنی خالہ حضرت عائشہ صدیقہ  اور اپنی ماں سے بڑھ کر کوئی سخی اور کھلے دل والا نہیں دیکھا۔ حضرت اسماء اتنی سخی تھیں کہ اپنی بہن حضرت عائشہ  کی وفات کے بعد  وراثت میں ملنے والا باغ اُنہوں نے فوری طور پر فروخت کر دیا۔ اُنہوں نے فوری طور پر یہ رقم غرباء اور ضرورت مندوں میں تقسیم کردی۔ اُن کے گھر کی دہلیز سے کبھی کوئی خالی ہاتھ واپس نہ مڑا۔
7۔حضرت اسماء  اپنے حوصلے ، سخاوت اور دانشمندی کی وجہ سے ہمیشہ یاد رہیں گی۔ آپ کا اللہ پر پختہ ایمان تھا۔ اُن کی زندگی ہم سب کے لیے ہمیشہ مشل راہ رہے گی۔
                      Lesson # 6   The Quaid’s Vision And Pakistan
۔1۔    قیام پاکستان کے ابتداےئ اور مشکل اوقات کے دوران قائداعظم محمد علی جناح نے ایک ملک گیر دورہ کیا۔ ان کا مقڈس لوگوں کے جذبہ کو اُبھارنا تھا، لاہور میں اپنی ایک تقریر میں اُنہوں نے کہ:
             "اپنے مقصد کی سختی سے مت گھبراؤ! نوجوان قوموں کی تاریخ میں بہت سی مثالیں ایسی ہیں کہ جب اُنہوں نے اپنے پختہ عزم اور قوتِ کردار سے اپنے آپ کو تعمیر کیا۔ آپ اعلیٰ ظرف ہو اور کسی سے کم نہیں ہو۔ اپنا حوصلہ بلند رکھو۔موت سے مت گھبراؤ ۔ ہمیں اسلام اور پاکستان کی عزت کو بچانے کے لیے بہادری سے اس کا سامنا کرنا چاہئے۔اپنا فرض ادا کرو اور پاکستان پر یقین رکھو۔یہ قائم رہنے کے لیے بنا ہے"۔
۔2-          بر صغیر کے مسلمانوں کے علیحدہ وطن کے لیے  عظیم راہنما کی جدو جہد کے سارے سفر کی بنیاد اسلامی اتحاد اور قومی وحدت کے مرکزی نقطہ پر تھی۔ وہ پاکستان کے بارے میں ایسی واضح اصطلاحات میں بات کرتے تھے کہ اُسے عام آدمی بھی  آسانی سے سمجھ سکتا تھا۔ پاکستان کی پیدائش سے تین سال پہلے اُنہوں نے بڑے پر زور انداز سے واضح کیا کہ "اپنی مخصوص تہذیب اور ثقافت، زبان اور ادب،فنون ِلطیفہ اور طرزِ تعمیر، نام اور نام رکھنے کے طریقوں،اقدار اور وراثت کی سمجھ بوجھ،قوانین اور اخلاقی ضابطے،رواج اور کیلنڈر، تاریخ اور روایات،رجحانات اور خواہشات کے لحاظ سے ہم  ایک قوم ہیں۔، مختصر یہ کہ زندگی کے بارے میں ہمارا ایک مخصوص نقطہ نظر ہے"۔
۔3-  نظریہ پاکستان کی بنیاد وہ بنیادی اصول تھا کہ مسلمان ایک آزاد قوم ہیں۔ ان کی قومی اور سیاسی شناخت کو ضم کرنے کی کسی بھی کوشش کے خلاف شدید مزاحمت ہوگی۔
۔4-  قائد اعظم انتہائی مظبوط ایمان اور عقیدے والی شخصیت تھے۔ وہ بڑی سختی سے اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ نئی قائم ہوتی ہوئی ریاست پاکستان کی بنیاد اُن اسلامی اصولوں پر مبنی ہے جو مکمل طور پر معاشرے کی اصلاح کریں گے۔ ستمبر 1945ء کو اپنے عید کے پیغام میں قائد اعظم نے فرمایا:۔
                            "اسلام ایک مکمل ضابطہ ہے جو زندگی کے ہر شعبے میں اجتماعی اور انفرادی طور پر  تمام مسلم معاشرے کو منظم کیے ہوئے ہے"۔
۔5- آج قائداعظم کا پاکستان بہت سی مشکلات کا سامنا کر رہا ہے۔ ہم بھول چکے ہیں کہ قائد اعظم کی متحرک قیادت میں مسلمانوں نے کتنی زیادہ جدوجہد کی تھی۔ ہم قائد اعظم کے سنہری اصول،" ایمان،اتحاد اور تنظیم" کی پیروی کر کے اپنی موجودہ مشکلات پر قابو پا سکتے ہیں۔ نوجوانوں کے لیے آپ کی نصیحت یاد کرتے ہوئے ہم اپنی قوم کو مظبوط بنا سکتے ہیں کہ  اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ کام،کام اور کام کرو؛ اس طرح ہم ضرور کامیاب ہوں گے۔   

Lesson No#7 Masjid Sultan Ahmad

۔ 1۔  مسجد سلطان احمد دنیا کی انتہائی متاثر کن یادگاروں میں سے ایک ہے۔ اس کا اندرونی حصہ نیلی ٹائیلوں سے آراستہ ہونے کی وجہ سے یہ نیلی مسجد کے نام سے بھی مشہور ہے۔یہ ترکی کے سب سے بڑے شہر استنبول میں واقع ہے جو 1453ء سے 1923ء تک سلطنت عثمانیہ کادارلحکومت تھا۔ اب یہ  سیاحوں کی توجہ کا  ایک مقبول ترین مرکز بن چکی ہے۔
۔2۔  یہ 1609ء سے 1616ء کے درمیان ، احمد اول کے دور حکومت میں تعمیر ہوئی تھی۔جیسا کہ رواج تھا کہ اس وقت کی دوسری مساجد  کی طرح یہ مسجد بھی اپنے بانی کے مقبرہ ، ایک مدرسہ اور ایک مسافر خانہ پر مشتمل تھی۔
3۔3۔ مسجد کی تعمیر1906ء میں شروع ہوئی۔ سلطان نے اپنے شاہی معمار صدف ہار مہمت آغا کو اس منصوبے کا انچارج مقرر کیا۔ اس کی افتتاحی تقریب 1616ء میں منعقد ہوئی۔ بد قسمتی سے سلطان اپنی زندگی میں اس مسجد کی تکمیل نہ دیکھ سکا۔ یہ اس کے جانشین مصطفےٰ اول کے دور حکومت میں مکمل ہوئی۔
 ۔4۔ نیلی مسجد، مسجد عثمانیہ اور بازنطینی گرجا،دونوں کے طرز تعمیر کی عکاسی کرتی ہے۔مسلم فن تعمیر کے عجائبات میں سے ایک مسجد "حاجیہ صوفیہ" کو بھی نمونے کے طور پر مدنظر رکھا گیا۔ نیلی مسجد کو آج بھی اس کی شان و شوکت، عظمت اور وسعت کے لحاظ سے بے مثال سمجھا جاتا ہے۔
۔5۔ مسجد کا ایک کھلا صحن ہے جو مسلسل محرابی چار دیواری سے گھِرا ہوا ہے۔اس کے دونوں طرف "وضو" کی سہولیات ہیں۔ اس کے مرکز میں ایک فوارہ ہےجو صحن کی وسعت کی نسبت تھوڑا چھوٹا ہے۔ مشرقی جانب دربار کے داخلی دروازے پر لوہے کی ایک بھاری زنجیر لٹکتی تھی۔یہ حصہ صرف سلطان کے لیے مخصوص تھا۔ یہ زنجیر وہاں اس لیے رکھی گئی تھی  تاکہ سلطان کو دربار میں داخل ہونے کے لیے ہر مرتبہ اپنا سر جھکانا پڑے۔ ذات باری کے سامنے ایک حکمران کی عاجزی کو یقینی بنانے کے لیے یہ ایک علامتی اظہار تھا۔
۔6۔ مسجد کے اندرونی حصے کی نچلی سطح پر بیس ہزار سے زیادہ ہاتھ سے بنی ہوئی چینی کی ٹائیلیں ہیں جن پر گل لالہ کے پچاس سے زیادہ مختلف ڈیزائن بنے ہوئے ہیں۔ گیلری کی سطح پر یہ ڈیزائن پھولوں،پھلوں اور سرو کے پودے کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔
۔7۔ اُوپر والا اندرونی حصہ نیلے رنگ سے مزین ہے۔ دو سو سے زائد مسحور کن ڈیزائن میں رنگ کی ہوئی شیشے کی کھڑکیاں اس کے اندرونی حصے کو چمکانے کے لیے قدرتی روشنی کو اندر آنے دیتی ہیں اور فانوس اپنی روشنی سے اسے اور زیادہ  چمکا دیتے ہیں۔ سجاوٹوں میں  قرآن پاک  کی آیات بھی شامل ہیں۔ فرش قالینوں سے ڈھکے ہوئے ہیں۔
۔8۔ مسجد کے اندرونی حصے کا سب سے اہم ترین عنصر اس کا محراب  ہے، جو عمدہ طریقے سے کھدے ہوئے سنگ ِمرمر  سے بنا ہے۔محراب کی دائیں طرف بڑا سجا ہوا ایک ممبر ہے۔مسجد کو اس طرح سے بنایا گیا ہے کہ جب یہ بہت پر ہجوم ہوتو بھر بھی مسجد میں بیٹھا ہر شخص ، امام صاحب کو دیکھ اور سن سکے۔
۔9۔ نیلی مسجد کے چھ مینار ہیں ۔ چار مینار مسجد کے چاروں کونوں میں کھڑے ہیں۔ پینسل کی اشکال والے ان میناروں میں سے ہر ایک کے تین بالا خانے ہیں جبکہ دونوں دوسرے مینار صحن کے آخر پر ہیں اور ان کے دو،دو بالا خانے ہیں۔
شام کو سیاحوں اور ترکوں کی بہت بڑی تعداد ، شام کی اذان سننے کے لیے مسجد کے سامنے والے پارک میں جمع ہوتی ہے مسجد روشنیوں سے جگمگا اُٹھتی ہے اور اس طرح مومنوں کے دل بھی عشق ِ حقیقی سے منور ہو جاتے ہیں۔ تاہم اتنے سالوں میں نیلی مسجد نے بہت کچھ کھویا ہے مگر پھر بھی اس نے اپنے سیاحوں کی محبت کو نہیں کھویا ہے۔ یہ مسجد ابھی تک دنیا کی بے تحاشہ زیارت کیے جانے والی یادگاروں میں سے ایک ہے۔

Lesson # 9   All Is Not Lost

۔1۔ بطور نرس یہ میرے پیشے کا آغاز تھا۔ میں نیورالوجی وارڈ کے انتہائی نگہداشت کے یونٹ(آئی سی یو) میں کام کرتی تھی۔ایک نوجوان پیشہ ور کی حیثیت سے میں پوری دنیا کو بچانے کی خواہش رکھتی تھی۔ خطرناک حادثات سے متاثرہ مریضوں کو تیزی سے صحت یاب ہوتے دیکھ کرمیں خوش ہوتی تھی۔تاہم شدید عصبی خرابیوں کے شکار افراد کی دیکھ بھال کرتے ہوئے مجھے بڑا دکھ ہوتا تھا۔
۔2۔ ایک دن بس کے حادثے میں زخمی ہونے والی نوجوان دوشیزا کے بستر کے پاس کھڑی ہو کر میں حیرانگی سے سوچ رہی تھی کہ کیا یہ بھی دوسروں کی طرح جلد صحت یاب ہو جائے گی۔ ایک مصروف سڑک عبور کرتے ہوئے تیز رفتار بس سے ٹکرانے کی وجہ سے حِرا کے سر اور ریڑھ کی ہڈی پر گہری چوٹیں آئیں تھیں۔ میں نے اس کے بے جان بازوؤں کو اپنے ہاتھوں میں لیا اور اس پر کئی ورزشیں آزمائیں مگر کوئی فائدہ نہ ہوا۔ میں نے اس کی چھوٹی بہن کو بلوایا اور یہ سوچتے ہوئے اس سے باتیں کروائیں کہ ممکن ہے کسی قریبی عزیز کی آواز سے شاید اس کے مردہ اعصاب متحرک ہو جائیں۔ وہ دیکھ سکتی تھی مگر بول نہیں سکتی تھی۔ اس کی آنکھی ایک مخصوص بے بسی کا اظہار کر رہی تھیں۔ میں اس کی آنکھوں کے ذریعے اس کا ذہن پڑھ سکتی تھی۔ شاید وہ کہنا چاہتی تھی کہ" براہ مہربانی میری مدد کرو"۔
۔3۔ ایک ساتھی نرس میرے قریب آئی اور پوچھا،"راحیلہ تم کیا کر رہی ہو؟ ہاری ہوئی جنگ لڑ رہی ہو"؟پہلے تو اپنی ساتھی سے مجھے مایوسی بھرا تبصرہ سن کر دکھ ہوا۔پھر میں نے جواب دیا،" میں کوشش کر رہی ہوں کہ اس کا ذہن اس کی بہن کی آواز سن سکے۔ اس کے ساتھ میں اس بات کو یقینی بنانے کی بہتر کوشش میں ہوں کہ اس کے بازوؤں اور ٹبگوں کو بہتر ورزش حاصل ہو۔ اس سے اسے عام انسانوں کی طرح چلنے میں مدد مل سکتی ہے"۔اسی دوران ڈیوٹی پر موجود ایک سینئر ڈاکٹر اندر آئے ، اُنہوں نے مجھے طنزیہ مسکراہٹ سے دیکھا اور کہا،" اگر آپ اپنی ڈیوٹی کا زیادہ تر وقت ایک مریض پو صرف کریں گی تو ہمیں دوسرے مریضوں کے لیے اور نئی نرسیں ملازم رکھنا ہونگی۔ مہربانی کر کے جاؤ اور دوسرے مریضوں کو دیکھو۔ ہمیں اس (مریضہ) کے لیے زیادہ اُمید نہیں ہے۔ میرا خیال نہیں کہ وہ دوبارہ کبھی چل سکے گی"۔
۔4۔ میں پریشان تھی۔ مریضہ کو بغیر دیکھ بھال کے چھوڑنے کی ہدایت مجھے درست معلوم نہیں ہوتی تھی۔ میں جانتی تھی کہ اس کے اعصاب  بُری طرح متاثر ہوئے تھے، لیکن اسے موقع دینے کی ضرورت تھی۔ کہیں سے میرے اندر کی آواز آئی" اس کے لیے ایک دفعہ اور کوشش کرو"۔
۔5۔ میں سینئر نرس کے پاس گئی اور اس سے کہا کہ میں اس مریضہ کی مدد اور اس کے ساتھ زیادہ قریب ہو کر کام کرنا چاہتی ہوں۔ سینئر نرس نے مجھے انتہائی حیرت سے دیکھااور کہا کہ اسے انچارج ڈاکٹر کی طرف سے اس مریضہ کو جنرل وارڈ میں منتقل کرنے کے احکامات ملے ہیں۔ڈاکٹروں کے خیال میں یہ ایک نا اُمید کیس تھا اس لیے دوسرے مریضوں کے لیے بستر خالی ہونا چاہیے تھا۔ مجھے یہ سن کر بہت دکھ ہوا۔ مریضہ کے اہل خانہ نے بھی مجھ سے درخواست کی کہ اس معاملے میؐ کوشش کر کے میں ان کی مدد کروں۔ کچھ نہ کچھ کرنے کی ضرورت تھی۔ میں اپنی مریضہ کو ہاری ہوئی جنگ  لڑنے کے لیے اکیلے نہیں چھوڑ سکتی تھی۔ میں نے ملازمت کا خطرہ مول لینے اور مریضہ کی مدد کرنے کے لیے اپنا ذہن تیار کر لیا۔ میں نے سینئر ڈاکٹرز سے درخواست کی کہ مجھے اس بے بس نوجوان مریضہ کی دیکھ بھال کرنے کی اجازت دیں۔ کسی نہ کسی طرح میں مریضہ کوICUمیں رکھنے میں کامیاب ہو گئی۔
۔6۔ میں نے حرا پر کام جاری رکھا۔ مگر وہ زیادہ بہتر نہیں ہو رہی تھی۔ اسے بستر پر قابل رحم حالت میں دیکھ کر میں اس کی طرح خود کو بھی بے بس محسوس کرنے لگی۔ کیا میں سینئر ڈاکٹرز کے سامنے اپنے رویہ کو درست ثابت کر سکوں گی؟میں نے اُمید نہیں کھوئی،میں نے صبر سے کام جاری رکھا اور اسے ورزشیں کرواتی رہی۔ میں اسے آہستہ آہستہ تھوڑا سا بہتر ہوتے دیکھ سکتی تھی۔ ایک دن میں  اُسے اپنی چھوٹی اُنگلی اُٹھاتے دیکھ کر پر جوش ہو گئی۔ سب کچھ نہیں کھویا تھا۔
۔7۔ مجھے تین ماہ کے تربیتی کورس پر کراچی بھیج دیا گیا۔ میں نے اپنی مریضہ کو اچھے ہاتھوں میں دینے کی ہر ممکن کوشش کی۔ میں تین مہینوں کے بعد واپس آئی تو  میں نےاپنی مریضہ کے بستر پر  کسی اور کو دیکھا۔ میرے پاؤں زمین پر جم گئے۔ مجھے یہ بھی پوچھنے کا حوصلہ نہ ہوا کہ" کیا ہوا؟"
۔8۔ ذہن میں اُبھرتے ہوئے کئی سوالات کے ساتھ جب میں اس کے بستر کے قریب کھڑی تھی تو مجھے اپنے کاندھے پر ہلکی سی تھپکی محسوس ہوئی۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو ایک نوجوان عورت مجھے دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔ " کیا تم اپنی مریضہ کی تلاش میں ہو؟" یہ کہتے ہوئے وہ مجھے گلے ملی۔ ہر کام کے لیے آپ کا شکریہ جو بھی آپ نے کیا! میں جانتی ہوں کہ مجھے اپاہج زندگی گزارنے  کی آپ نے اُن کوع اجازت نہیں دی۔ 
۔9۔ میں ابھی تک کھڑی تھی حتیٰ کہ اس کے خاندان والے اپنے چہروں پر بڑی مسکراہٹیں لیے میرے ارد گرد جمع  ہو گئے۔ خدا کا شکر ہے! کہ وہ میری مریضہ تھی، جو اپنے پاؤں پر کھڑی اور چل رہی تھی۔اُس کے ارد گرد مشینری اور ٹیوبوں کے بغیر میں اُسے پہچان نہ سکی۔وہ بیساکھیوں پر چلتی تھی جن کو اس نے چند مہینوں میں چھوڑ دینا تھا۔ میں خوش تھی کہ میری کوششیں رنگ لے آئیں۔ لیکن میں سب سے زیادہ اس بات پر خوش تھی کہ اللہ نے ہاری ہوئی جنگ جیتنے کے لیے میری مدد کی۔
۔10 وہ اور اس کے افراد خانہ میرے ساتھ گہری دوستی کے بندھن میں بندھ گئے۔ میرے لیے ان کے احسان مندی کے جذبات دیکھ کر میں عاجز ہو جاتی تھی۔میں نے اپنے اندر ایک نئی طاقت کا جذبہ محسوس کیا۔" جہاں چاہ وہاں راہ" مجھے ایک نرس ہونے پر فخر تھا۔

Lesson # 10 Drug Addiction 

1۔1.آج کے دور میں منشیات کی عادت پوری دنیا کا  ایک عام مسئلہ ہے۔ منشیات کی عادت کی بہت سی صورتیں۔ لیکن ان میں سب سے زیادہ خطرناک اس پر مکمل انحصار ہے۔ لمبے عرصے تک منشیات کا استعمال مستقل ذہنی اور جسمانی بیماری کا باعث بنتا ہے۔ جتنی زیادہ خطرناک چیز استعمال کی جائے اُسی قدر اس کا خطرہ اور بڑھ جاتا ہے۔ اس کا مسلسل استعمال  منشیات پر مکمل انحصار کا باعث بن   جاتا ہے۔ منشیات کی کچھ اقسام ایسی ہیں جو ذہنی اور جسمانی خرابی کا باعث بنتی  ہیں، وہ ہیروئن، چرس، تمباکو، ویلیم،کوکین اور شراب ہیں۔
2۔2. نشے کی عادت ماحولیاتی عوامل کی وجہ سے ہوتی ہے۔ چند اہم ماحولیاتی عوامل ایسے ہیں جو نشہ کی عادت کا باعث بن سکتے ہیں، وہ برے دوستوں کا اثر اور تکلیف دہ گھریلو پس منظر ہیں۔ جب نوجوان  لوگ متواتر بری صحبت میں رہیں اور مہم جوئی کی خاطر تجربات کرنے لگیں تو وہ نشہ کی عادت کا شکار ہو سکتے ہیں۔ ایسے لوگ جو اپنی زندگیوں سے غیر مطمین اور نا خوش ہوتے ہیں وہ زندگی   کی ذمہ داریوں سے چھٹکارا پانے کے لیے نشہ کی عادت کا شکار ہو سکتے ہیں۔
3۔3.اس حوالے سے سب سے اہم پیش رفت ، نشے کے عادی فرد کی دوبارہ بحالی اور صحت یابی ہے۔پاکستان سمیت کئی ممالک میں نشہ کے عادی افراد ، اُن کے خاندان اور دوست اپنے مسئلہ کے متعلق دوسروں سے بات کرنا معیوب سمجھتے ہیں۔ دوسروں سے قطع تعلق ہو جانے کے ڈر کی وجہ سے وہ اس کے متعلق بات کرنے پر شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔ اس سے نہ صرف علاج مشکل ہو جاتا ہے بلکہ بر وقت علاج اور مشاورت نہ ملنے کی وجہ سے نشہ کے عادی افراد مر جاتے ہیں۔
4۔4. اس پر قابو پانے اور دوبارہ صحت یابی کے عمل کے لیے دوبارہ بحالی کے مراکز بہترین مقامات ہیں۔ یہ مراکز متاثرہ افراد کی کڑی نگرانی کرتے ہیں۔ان مراکز میں ان لوگوں کو مکمل طبی امداد اور راہنمائی مہیا کی جاتی ہے۔ اس لیے منشیات کی لعنت کے عادی افراد کو کسی مناسب اور سند یافتہ دوبارہ بحالی کے مراکز میں ضرور لے جانا چاہیے جہاں ان کے لیے مناسب دیکھ بھال  اور علاج میسر ہو۔ اگرچہ اس کے لیے نشے کی عادت کے مسئلہ کی فوری شناخت اور ان مراکز کی ٹیم کے ساتھ متاثرین کا مکمل تعاون درکار ہوتا ہے۔
5۔5.نشہ کے عادی شخص کی دوبارہ بحالی میں جو دوسری چیز حصہ لیتی ہے وہ مناسب مشاورت ہے۔ یہ کام جتنی جلدی کیا جائے متاثرہ افراد کے لیے اتنا ہی بہتر ہے۔ نشہ کی عادت کی طرف دوبارہ لوٹ جانے کے خطرات کی وجہ سے نشہ کے عادی فرد کی دوباری بحالی کے بعد بھی مشورت کا عمل جاری رہنا چاہیے۔ بہتر تحریک اور ہم آہنگی کے لیے ڈاکٹروں، خاندان والوں اور دوستوں کو چاہیے کہ وہ متاثرہ فرد پر کڑی نگاہ اور مشاورت کا عمل ضرور جاری رکھیں۔
6۔ 6.نشہ کی عادت واقعی کسی معاشرہ کے لیے بڑا سنگین خطرہ ہے۔ صرف پاکستان میں ہی تقریباً پچاس لاکھ افراد نشہ کے عادی ہیں۔ متاثرہ افراد معاشی، معاشرتی اور صحت جیسے مسائل کا بہت زیادہ شکار ہوتے ہیں۔ پوری دنیا کی حکومتیں معاشرہ سے نشے کی عادت کو ختم کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں لیکن اس کا مکمل طور پر صفایا کرنے کے لیے مزید کوششوں کی ضرورت ہے۔ یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہو سکتا ہے کہ اگر لوگ منشیات سے لاحق خطرات اور اثرات سے متواتر آگاہ ہوتے رہیں۔ اُنہیں صحت مندانہ اور با مقصد زندگی بسر کرنے کے لیے تہیہ کر لینا چاہیے۔
Lesson # 11 Noise in the Environment 

۔1۔ صوتی آلودگی کی تعریف کچھ یوں  کی گئی ہے کہ" شور کی کوئی بھی صورت جو معمولاتِ زندگی کو خراب کرتی ہے"۔اگر اسے روکا نہ جائے تو یہ انسانی ذہن اور جسم کے ساتھ ساتھ جانوروں پر بھی سنگین اثرات مرتب کر سکتی ہے۔
۔2۔ شور کی آلودگی پاکستان میں بے سکونی، ذہنی دباؤ اور تکلیف دہ عوامل پیدا کرنے والے سب سے بڑے اسباب میں سے ایک ہے۔ شہری علاقوں اور بڑے شہروں میں شور کی آلودگی خطرناک سطح تک پہنچ چکی ہے۔مثال کے طور پر پنجاب تحفظ ِ ماحولیات کے ادارہ نے ایک سروے میں دعویٰ کیا ہے کہ لاہور میں شور کی سطح 91 ڈیسی بل تک پہنچ چکی ہے، جبکہ اس کی قابل قبول سطح 75ڈیسی بل ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ بہت سے لوگوں کی ذہنی اور جسمانی صحت پہلے ہی سے خطرے میں ہے۔
۔3۔پاکستان میں شور کی آلودگی کے بڑے ذرائع نقل و حمل، تعمیراتی جگہیں، بجلی کے آلات کا غیر محتاط استعمال اور اونچی آواز میں بولنے کی عادات ہیں۔ آمدورفت کے مختلف ذرائع جیسا کہ گاڑیاں، ہوائی جہاز، ریل گاڑیاں اور بحری جہازوں سے آنے والا شور انسانی آبادیوں کے لیے بہت پریشان کن ثابت ہوتا ہے۔ شہری علاقوں میں آبادی میں اضافے اور ترقی کے ساتھ ساتھ گاڑیوں کی ٹریفک میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اس نے ڈرائیوروں کے غیر ضروری ہارن بجانے کی صورت میں شور کی انتہائی زیادہ آلودگی کو وسیع پیمانے پر بڑھاوا دیا ہے۔ ہوائی اڈوں اور ریلوے سٹیشنوں کے قریب رہائشی علاقوں کی آبادی میں تیزی سے اضافے نے بھی رہائشیوں کو شور کے مستقل اور ناقابلِ بچاؤ خطرے میں ڈال دیا ہے۔
۔4۔شہری علاقوں میں صوتی آلودگی کا ایک دوسرا سبب تعمیراتی جگہوں پر ہونے والا کام ہے۔ شہری علاقوں میں عام طور پر تعمیراتی کام کی رفتار  بڑی سست اور وقت کا زیاں ہوتا ہے۔ نقل و حمل، تعمیراتی جگہوں پر استعمال ہونے والا سامان جیسا کہ چھیدنے اور سوراخ کرنے کی آوازیں بھی شور کی آلودگی کا بڑا سبب ہیں۔ یہ نہ صرف عوام کو پریشان کرتا ہے بلکہ تعمیراتی مزدوروں کی بھی ذہنی اور جسمانی تھکاوٹ کا باعث بن کر متاثر کرتا ہے۔ 
۔5۔ ٹیکنالوجی کا استعمال بھی صوتی آلودگی کا ایک اور ذریعہ ہے۔ مثال کے طور پر موبائل فون ، بجلی کے جرنیٹرز، میوزک سسٹمز اور ٹی۔وی وقت کے ساتھ ساتھ تکلیف دہ ہو جاتے ہیں۔ ان تمام چیزوں کا بغیر نگرانی استعمال ان کو آلودگی پھیلانے والے عناصر بنا دیتا ہے۔ جب لوگ دفتروں،ہسپتالوں،سکولوں اور کالجوں میں جاتے ہیں تو عام طور اپنے مابائل فون کو بند یا طرز خاموشی پر نہیں کرتے۔ وہ رہائشی علاقوں میں بجلی کے جرنیٹرز کا بھی بے تحاشہ استعمال کرتے ہیں اور دوسرے رہائشیوں کے آرام میں خلل ڈالتے ہیں۔ اس کے علاوہ بلند موسیقی یا ٹی۔وی کو بلند آواز میں سننا صوتی آلودگی کا ایک اور سبب ہے۔ اس کے لیے لوگوں کو ذمہ دار شہریوں جیسا رویہ اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ دوسے لوگ اس طرح کے غیر محتاط افعال کی وجہ سے تکلیف کا شکار نہ ہوں۔
۔6۔ صوتی آلودگی نہ صرف ماحولیاتی بگاڑ کا سبب بنتی ہے بلکہ اس کا انسانی صحت پر بھی منفی اثر ہوتا ہے۔ یہ ایک حیاتیاتی دباؤ ہے اور سخت رویہ، ہائی بلڈ پریشر،زیادہ ذہنی دباؤ،سماعت کی خرابی، بے چینی،ذہنی  دباؤ اور بے خوابی جیسی کیفیات کا سبب بن سکتا ہے۔ بے خوابی مزید بے چینی، بد مزاجی اور جذباتی دباؤ کی طرف لے جا سکتی ہے۔ مزید یہ کہ شور کی آلودگی طلبہ کے تعلم اور توجہ کو بری طرح متاثر کر سکتی ہے۔ امتحان کی تیاری کرنے والے طلبہ میوزک سسٹمز ٹی۔وی یا بجلی کے جرنیٹروں کی بلند آواز کی وجہ سے جلد پریشان ہو سکتے ہیں۔ اس سے انہیں غیر ضروری ذہنی اور جسمانی تناؤ ملتا ہے۔
۔7۔ پاکستان میں مختلف ذرائع سے آنے والے شور کے درجات کو کم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ شور کے غیر ضروری درجات پر قابو پانے کے لیے حکومت کو لازمی طور پر مختلف  ذرائع فعال بنانا اور استعمال میں لانا چاہییں۔ مثال کے طور پر پنجاب تحفظِ ماحولیات کا ادارہ رہائشی علاقوں میں تقریباً 55ڈیسی بل اور کاروباری علاقوں میں 75ڈیسی بل شور کی سطح تجویز کرتا ہے۔ یہ اعدادو شمار گورنمنٹ کی طرف سے لازماً سختی سے لاگو ہونے چاہییں۔ مزید یہ کہ صوتی آلودگی کو کم سے کم کرنے کے لیے گورنمنٹ کو ٹریفک کی ترتیب ست روانی، شور کرنے والی گاڑیوں کو سڑک پر آنے سے روکنا، جہاں ضروری ہو شور کی راہ میں رکاوٹوں کا استعمال کرنا اور تعمیراتی کاموں کی جلد تکمیل کو یقینی بنانا چاہیے۔ اپنے علاقے میں غیر ضروری شور پیدا کرنے والے عاملین کو روکنے، قوانین بنانے اور لاگو کرنے کے لیے رہائشی انجمنوں کو بھی آگے آنا چاہیے۔ دفتروں، ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں میں شور کے بہتر انتظام کے لیے موبائل فون کا استعمال سختی سے منع ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ ان علاقوں میں لوگوں کو اُونچی آواز میں بولنے سے بھی روکنا چاہیے۔
۔8۔ صوتی آلودگی ایک سنجیدہ مسئلہ ہے اور مقامی اور حکومتی سطح پر اسے زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔ لوگوں کو انسانی صحت پر شور کے خطرناک اژر کے بارے میں لازماً زیادہ آگاہی پیدا کرنی چاہیے۔ اگرچہ ماحول میں اس تکلیف دہ چیز کے غیر ضروری استعمال سے بچنے کے لیے مزید شہری احساس اور ذمہ دارانہ رویہ اپنانے کی ضرورت ہے۔ صرف اسی صورت میں ہمارا وطن انتہائی پر سکون اور رہنے کے لیے خوبصورت جگہ بن سکتا ہے۔
Lesson # 12 Three Days to See 

۔1۔بعض اوقات میں سوچتی ہوں کہ  ہر دن اس طرح گزارنا کہ جیسے ہم کل مر جائیں گے، ایک شاندار اصول ہو گا۔ اس گرح کا رویہ اندگی کی اقدار پر بڑی تیزی سے زور دے گا۔ہمیں ہر دن شرافت ،جوش و جذبہ  اور صلہ و ستائش کے ذوق و شوق میں گزارنا چاہیے جو اکثر اس وقت ختم ہو جاتا ہے جب ہمارے سامنے آنے والے دنوں ،  مہینوں اور سالوںکی صورت میں وقت کا مستقل تصور قائم ہوجاتا ہے۔ یقینناً ایسے لوگ بھی ہونگے جو عیش پسندی کے معقولے"کھاؤ پیو اور موج اُڑاؤ" کو اپنائیں گے لیکن زیادہ تر لوگ سر پر کھڑی موت کے یقین سے سنور جائیں گے۔
۔2۔ کہانیوں میں تباہی کے کنارے پر کھڑا ہیرو آخری لمحے پر خوش قسمتی کی وجہ سے بچ جاتا ہے لیکن اس کا جذبہ اقدار ہمیشہ کے لیے تقریباً  تبدیل ہو جاتا ہے۔ وہ زندگی کے معنوں اور اس کی مستقل روحانی اقدار کا زیادہ قدر دان ہو جاتا ہے۔ یہ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ وہ لوگ جو موت کے منہ میں رہتے ہیں یا رہ چکے ہیں وہ اپنے ہر کام میں ایک خوشگوار خوبصورتی لے آتے ہیں۔
۔3۔ اگر مجھے صرف تین دنوں کے لیے اپنی آنکھوں کے استعمال کی اجازت سے دی جائے تو شاید میں یہ تصور کرتے ہوئے بہتر طور پر وضاحت کر سکوں گی کہ میں سب سے زیادہ کیا دیکھنا پسند کروں گی۔
۔4۔پہلے دن میں اُن لوگوں کو دیکھنا چاہوں گی جن کی رحمدلی، شرافت اور دوستی نے میری زندگی کو جینے کے قابل بنایا ہے۔
۔5۔ اگلے روز بصارت کے دوسرے دن مجھے صبح سویرے جاگنا چاہیے اور وہ پر جوش معجزہ دیکھنا چاہیے جس سے رات دن میں تبدیل ہوتی ہے۔مجھے زندگی کا وہ شاندار منظر خوف کے احساس کے ساتھ دیکھنا چاہیے جس سے سورج سوئی ہوئی زمین کو جگاتا ہے۔
۔6۔ اس دن کو مجھے دنیا کے ماضی اور حال کا تیزی سے نظارہ کرنے کے لیے وقف کرنا چاہیے۔ میں انسانی ترقی کا شاندار منظر  اور زمانوں کا تبدیل ہوتا ہوا منظر دیکھنا چاہوں گی۔ اتنا سب کچھ ایک دن میں کیسے  مختصر طور پر دیکھا جا سکتا ہے؟ یقینناً عجائب گھروں کے ذریعے۔
۔7۔آنے والی صبح کو نئی خوشیوں کی دریافت میں بے چین، میں صبح صادق کو خوش آمدید کہوں گی کیونکہ مجھے یقین ہے کہ وہ لوگ جن کے پاس واقعی دیکھنے والی آنکھیں ہیں وہ ہر روز کی صبح مکمل طور پر حسن کا نیا کھلنے والا راز دیکھتے ہوں گے۔ یہ میرے معجزے کی شرائط کے مطابق دیکھنے کے لیے تیسرا اور آخری دن ہوگا۔
۔8۔ کھوئی ہوئی خواہشات کے پچھتاوے پر ضائع کرنے کے لیے میرے پاس وقت نہ ہو گا: کیونکہ میرے پاس دیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ پہلا دن میں نے اپنے دوستوں، جاندار اور بے جان اشیاء کے لیے وقف کیا۔دوسرے دن مجھ پر انسان اور فطرت کی تاریخ عیاں ہوئی۔ آج کا دن میں دنیا کی موجودہ اندگی کے اُن مقامات کے کاموں پر بسر کروں گی جہاں انسان زندگی کے کاروبار کے لیے آتے جاتے ہیں۔ جس طرح انسانی سرگرمیاں اور حالات نیو یارک میں ہیں بندہ اور کہاں دیکھ سکتا ہے۔ تو پس یہ شہر میری منزل بن جاتا ہے۔
۔9۔کبھی کبھی میں نے بصارت رکھنے والی دوستوں کو یہ جاننے کے لیے آزمایا کہ وہ کیا دیکھتے ہیں۔ حال ہی میں میری ایک اچھی دوست مجھے ملنے آئی جو کہ جنگل سے اک لمبی سیر کے بعد واپس آئی تھی۔ میں نے اس سے پوچھا کہ اس نے وہاں کیا دیکھا؟ اس نے جواب دیا" کوئی خاص نہیں"۔ اگر میں ایسے جوابات کی عادی نہ ہوتی تو مجھے شاید یقین نہ آتا ،کیونکہ لمبا عرصہ پہلے مجھے یقین ہو گیا تھا کہ بصارت والے لوگ بھی بہت کم دیکھتے ہیں۔
۔10۔ میں نے اپنے آپ سے سوال کیا کہ یہ کیسے ممکن تھا کہ جنگل میں ایک گھنٹہ سیر کرنا اور کوئی بھی قابل توجہ چیز نہ دیکھنا۔ میں جو دیکھ بھی نہیں سکتی صرف چھونے سے دلچسپی کی سینکڑوں چیزیں تلاش کر سکتی ہوں۔میں ایک پتے میں پائے جانے والے دلکش تناسب کو محسوس کرتی ہوں ،میں"سلور برچ" کے درخت کی ملائم سطح یا صنوبر کی کھردری ناہموار چھال پر پیار سے ہاتھ پھیرتی ہوں۔ موسم بہار میں درختوں کی شاخوں کو اس اُمید سے چھوتی ہوں تا کہ سردیوں کی نیند کے بعد فطرت کے جاگنے کی پہلی علامت یعنی کونپل کو تلاش کر سکوں۔ میں پھول کی خوشگوار مخملی ساخت کو محسوس کرتی ہوں اور اس کی حیرت انگیز تہوں کو دریافت کرتی ہوں جس سے قدرت کا کوئی معجزانہ پہلو مجھ پر عیاں ہو جاتا ہے۔ کبھی کبھی اگر قسمت ساتھ دے تو میں نرمی سے اپنا ہاتھ ایک چھوٹے درخت پر رکھتی ہوں اور کسی پرندے کے مکمل گیت کی خوشگوار تھرتھراہٹ کو محسوس کرتی ہوں۔ جب چشمے کا ٹھنڈا پانی میری کھلی اُنگلیوں میں سے تیزی سے گزرتا ہے تو میں خوش ہوتی ہوں۔ میرے لیے صنوبر کے پتوں کا گھنا قالین یا اسفنج نما گھاس  ایک بہت آرام دہ ایرانی قالین سے زیادہ کشش رکھتا ہے۔ میرے لیے موسموں کا شاندار منظر ایک پر جوش اور نہ ختم ہونے والا کھیل ہے جسے میں اپنی انگلیوں کی پوروں سے محسوس کرتی ہوں۔
۔11۔ اگر میں کسی یونیورسٹی کی صدر ہوتی تو" اپنی آنکھوں کو کیسے استعمال کرنا ہے" کے عنوان سے تدریس کے لیے ایک لازمی نصاب بناتی اور لاگو کرتی۔ پروفیسر اپنے شاگردوں کو دکھانے کی کوشش کرتا کہ کس طرح وہ توجہ دیئے بغیر گزری ہوئی چیزوں کو غور سے دیکھ کر اپنی زندگیوں میں خوشیوں کا اضافہ کر سکتے ہیں۔ وہ ان کی خوابیدہ اور بے عملی کا شکار ہونے والی صلاحیتوں کو بیدار کرنے کی کوشش کرتا۔

No comments: